Thursday 30 August 2018

کالے جادو نے معاشرے کو آکٹوپس کی طرح جکڑ لی

کالے جادو نے معاشرے کو آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا
محمد قیصر چوہان

سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم’’کالا‘‘ کے بعد فارسی اسم’’جادو‘‘ ملنے سے کالا جادوبنا۔ جادو کی تاریخ، انسانی تاریخ کی مانند بہت قدیم ہے جادو ایک علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انھیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جادو کابانی ابلیس تھا جس نے انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے اور انہیں گمراہ کرنے کا چیلنج کیا تھا اور خدا نے اس کے وسوسوں سے بچنے کی تاکید کی تھی۔جادو کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک، کفر، برائی اور گناہ پر رکھی گئی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موت، بیماری، زہر، جراثیم اور بہت سے کبیرہ و صغیرہ گناہ تخلیق کئے ہیں اسی طرح ان میں ایک جادو بھی ہے۔ چونکہ جادو اللہ تعالیٰ کے اذن سے اثر کرتا ہے جس طرح دو ا اپنا اثر مریض پر مرتب کرتی ہے جب اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ جس طرح آگ جلاتی ہے، کینسر سے انسان سے مر جاتا ہے۔ اسی طرح جادو کے ذریعے انسان متاثر ہوتا ہے۔ اسی لیے اس امر کے واقعہ ہونے کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ لفظ جادو کو بہت سے معنوں میں لیا جاتا ہے۔مثلاً ٹونہ ’’سحر‘‘، منتر، جنتر، پراسرار اشاروں اور علامات کا استعمال کرنا تاکہ چڑیلوں اور بد روحوں کو بلایایا بھگایا جا سکے۔
جادو کسے کہتے ہے؟واقعات کے غیرفطری طور پر ظہور پزیر میں لانے کافن جادو کہلاتا ہے۔ یہ فن ہر زمانے میں ہر قوم کے افراد کے عقیدے میں داخل رہا۔ اور مختلف اشخاص ہر جگہ اس کا دعوی کرتے چلے آئے ہیں۔ قدیم مصر کے پجاری اسی دعوے پر اپنی عبادت اور مذہب کی بنیاد رکھتے تھے۔ چنانچہ قربانیاں جادو ہی کی بنیاد پر دی جاتی تھیں۔ قدیم مصری ، بابل ، ویدک اور دیگر روایتوں میں دیوتاؤں کی طاقت کا ذریعہ بھی جادو ہی کو خیال کیا جاتا تھا۔ یورپ میں باوجود عیسائیت کی اشاعت کے جادو کا رواج جاری رہا۔ افریقہ میں اب تک ایسے ڈاکٹر موجود ہیں جو جادو کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔کالا جادو جنوں ، دیوتاؤں اور بدروحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی جادو قدرت کے واقعات میں تصرف کے قابل بناتا ہے۔ رمل ، جفر ، جوتش ، اور نجوم بھی اسی کی شاخیں ہیں۔ جو توہم پرستی پر مبنی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جادو کئی شکلوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثلا تعویز ، گنڈے ، جن اور بھوت کا چمٹنا اور اتارنا وغیرہ۔تاریخ پڑھی جائے تو ایسا کوء دور نہیں گزرا ہوگا جس میں جادو کا زکر نہ ملے۔ دنیا کے تمام مذاہب بھی جادو پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ایسا کیوں ہے کہ دنیا کا ہر شعبہ جادو کے متعلق الگ الگ خیال رکھتا ہیں۔جادو کا ذکر قرآن پاک میں بھی مختلف جگہوں پر آیا ہے، ہاروت ماروت کے قصہ میں اور اس کے علاوہ حضرت موسی علیہ. السلام اور فرعون کے جادوگروں کا واقعہ تو سبھی جانتے ہونگے، لیکن ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریقے اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں۔ آج بھی عرب دنیا میں جہاں آپ سمجھتے ہون گے کہ یہ قبیح حرکات ناپید ہوں گی، وہاں بھی جادو ٹونے رائج اور عام ہیں، رسومات میں فرق ہے، یہی فرق پھر مختلف طریقوں میں واضح ہو جاتا ہے۔ عیسائیت اور مغربی دنیا میں اس وقت فری میسن اور اس جیسی تنظیموں کا چرچا زبان زد عام ہے، وہ فری میسن اور دوسری تنظیمیں جن کا نام لیا جاتا ہے، شیطان کے پیروکار کہلاتے ہیں اور اسی جادوئی دنیا کے پجاری ہیں، وہاں یہ الگ طریقوں سے رائج ہے، بد روحوں سے شگون وہاں بھی لیے جاتے ہیں. ہمارے ہاں جو زیادہ پڑھ لکھ جاتا ہے، وہ یہی سمجھتا ہے کہ جادو ٹونا جہالت کی باتیں ہیں جو خوامخواہ دہرائی جا رہی ہیں، جبکہ اس شے نے معاشروں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، گھروں کے گھر تباہ کر دیے ہیں۔
جادو دنیا کی سب سے موثر قوت ہے جو غائبانہ بلاتجدید زمان و مکان انسانی مزاج اور جسم بلکہ زندگی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ یعنی جادو کے زیر اثر انسان کی بسا اوقات موت واقع ہو جاتی ہے۔ جادو کیلئے عربی زبان میں لفظ ’’سحر‘‘ استعمال ہوا ہے۔ سحر وہ عمل ہے جس میں پہلے شیطان کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس سے مدد لی جاتی ہے۔ سحر دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کا نام ہے۔ ساحر (جادوگر) جب باطل کو حق بنا کر پیش کرتا ہے اور کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پلٹ کر سامنے لاتا ہے تو گویا وہ اسے دینی حقیقت سے پھیر دیتا ہے۔ سحر تفریق کی کئی شکلیں ہوتی ہیں، مثلاً بیماری میں مبتلا کرنا، مار ڈالنا، رشتے داروں میں پھوٹ ڈلوانا، مالی حالت برباد کر دینا، ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالنا، باپ اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالنا، دو بھائیوں کے درمیان جدائی ڈالنا، دو شریکوں میں جدائی ڈالنا، خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا اور یہ آخری شکل زیادہ عام ہے اور سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
جادو کے قدیم ترین شواہد زمانہ قبل از تاریخ میں بھی ملتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی علم ہے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ جادوگروں کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ انہوں نے اپنی رسالت کے ثبوت کے طور پریدبیضا اور لاٹھی کے معجزے پیش کئے تو فرعون پکارا اٹھا کہ یہ تو جادو ہے۔ کئی دن فرعون اور حضر ت موسیٰ علیہ السلام میں تبادلہ خیال ہوتا رہا آخر کار فرعون نے فیصلہ کیا کہ ان کا جادوگروں سے مقابلہ کرایا جائے۔ قرآن پاک نے اس مقابلے کو متعدد مقامات پر بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ترجمہ: موسیٰ علیہ السلام نے کہا ’’اے فرعون‘‘ میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں۔ میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔ فرعون نے کہا ’’اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے اسے پیش کر۔ ’’موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتاجاگتا اژدھا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔ اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا، یقیناًیہ شخص بڑا جادو گر ہے۔ چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔ انہوں نے کہا، اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟ فرعون نے جواب دیا، ہاں اور تم مقرب بارگاہوں گے۔ پھر انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ’’تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں‘‘؟ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا’’ تم ہی پھینکو۔‘‘ انہوں نے جو اپنے آنچھ پر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلو ں کو خوف زدہ کر دیا اور بڑی ہی زبردست جادو بنا لائے۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اشارہ کیا کہ پھینکے اپنا عصا۔ ان کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔ (سورۃ الاعراف)
جادو کا علم حقیقت میں موجود ہے۔ جادو کی طاقت کا انحصار جادوگر عامل کی طاقت پر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کالا علم کیا ہے؟ کالے علم کا رنگ کالا نہیں ہوتا، بلکہ کالا کہتے ہیں ظلمت، گھپ اندھیرا، کفر، شرک اور اللہ کی ذات کو چھوڑ کر غیراللہ کی مد د کو پکارنا، دراصل کالا علم اور جادو ایک ہی بات ہے۔ جادو ایک علم کے پاس اپنی حاجات لے کر جانے والے اور پھر ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے والے اپنے آپ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں۔
جو لوگ جادو کے علم کا انکار کرتے ہیں انہیں شاید قرآن مجید میں موجود بے شمار واقعات کا علم نہیں، جیسا کہ قصہ ہاروت و ماروت، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے جادوگروں کا مقابلہ۔شریر جنات اور شیاطین کے تعاون کے بغیر یہ عامل، جادو گر کوئی کارروائی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔ جنات ان سے تعاون کرنے کیلئے اس وقت تک تیار نہیں ہوتے جب تک ان سے کفر یہ اور شرکیہ کام نہیں کروا لیتے۔ چنانچہ انہیں جات کو تابع فرمان بنانے کیلئے اپنے ایمان کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ جادو گر شیاطین کو راضی کرنے کیلئے ایسے منتر اور کلمات ادا کرتے ہیں جن میں کفر و شرک ہوتا ہے۔ شیاطین کی تعریف کی جاتی ہے کوا کب و نجول کی عبادت کی جاتی ہے۔ جادو گر ہر وہ کام کرتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے اور شیاطین خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عام طور پر گندے اور ناپاک رہتے ہیں۔ دراصل جادو، جادوگر اور شیاطین کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے ا نام ہے۔ شیاطین کو راضی کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے جادو گروں کے مختلف شیطانی اعمال اور ناپاک وسائل ہیں۔ کچھ ہمیشہ ناپاک رہتے ہیں اور کچھ جادوگروں کو شیاطین کے لیے جانور ذبح کرنے پڑتے ہیں وہ بھی بسم اللہ پڑھے بغیر اور ذبح شدہ جانور کو ایسی جگہ پھینکنا پڑتا ہے جسے شیاطین خود طے کرتے ہیں۔ بعض جادو گر ستاروں کو سجدہ کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیاطین جادوگروں سے پہلے کوئی حرام کام کرواتے ہیں پھر اس کی مدد اورخدمت کرتے ہیں۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ جادو گر نجاست کا پلند ہ ہوتا ہے۔ جب تک وہ گندہ نہیں ہو گا اس وقت تک اس کا جادو اثر انداز نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ جتنازیادہ عقیدہ اس کا غلط ہو گا، کفر زیادہ ہو گا، اتنا اس کا جادو موثر ہو گا اور جتنی اس کی گندی حالت ہو اس کا جادو تیز ہو گا، کیونکہ جادو شیطانیت اور شرارت کا اثر ہے جس وقت اس کی شرارت عروج کو پہنچے گی اتنا ہی اس کاجادو بھی تیز ہو گا۔
جن، شیطان اور جادو کے درمیان بہت گہرا تعلق ہوتا ہے بلکہ جادو کی بنیاد ہی جنات اور شیاطین ہیں۔ جس طرح کچھ لوگ جادو کا انکار کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ جنات کے وجود سے بھی انکار کرتے ہیں قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں: اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا جنوں پر حکومت کرنے کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ قرآن مجید کی ایک مکمل سورت ’’سورۃالجن‘‘ میں بھی جنات سے متعلق بیان ملتا ہے۔قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جنات انسانوں کے جسم میں بھی داخل ہوتے ہیں۔ جنات مختلف انسانوں اور جانوروں کا روپ دھار کر انسانوں کے سامنے آتے ہیں۔ جانوروں کی شکل میں اکثر کالی بلی، بکرے کا بچہ، سیاہ کتا، بطخ، بچوں کو لے کر پھرنے والی مرغی، بھینس، لومڑی، انسانوں کی شکل میں، معمولی قد کے آدمی، بونے، بڑے لمبے قد کے آدمی، بڑے بڑے میناروں اور کھمبوں کی طرح دراز قد نظر آتے ہیں۔ بعض لوگوں کو چھوٹے بچوں کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں۔ قرآن مجید میں جادوکی تعلیم کو کفر اور جادو سیکھنے کو حرار قرار دیا گیا ہے۔ اسے فتنا قرار دیاگیا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جیسے حق کی قوتیں کام کرتی رہیں ویسے ہی بدی کی طاقتیں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھاتی رہیں ،حق کے ماننے والے نوری علم سے جہاں پر لو گوں کے مسائل حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور قرآن کی تعلیم کے ذریعے انہیں ذہنی آسودگی دیتے ہیں وہاں پر بدی کا ساتھ دینے والے شیطانی علوم سے عوام الناس کو مختلف مصائب میں مبتلا کرتے رہتے ہیں یہ لوگ نہ صرف کالے علم کی مختلف اقسام جیسے جنتر، منتر اور تنتر سے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرتے ہیں بلکہ گندی روحوں ، موکلوں اور د یگر کالی شکتیوں جیسے ہنومان ،کھیترپال ،بھیرو، ناگ دیوتا ، لوناچماڑی، چڑیل، لکشمی دیوی ، کالا کلوا ، پاروتی دیوی ، کلوسادھن، پیچھل پیری ،ڈائن ،ہر بھنگ آکھپا جیسی دیگر بلاؤں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ایک دوسرے کا مخالف بنا دیتے ہیں اور اس کے عوض ان سے ہزاروں روپے بٹورتے ہیں جبکہ بعض چالباز اور دولت کے پجاری عامل زہر سے لکھ کر تعویز دیتے ہیں جس کو گھول کر پینے والا نہ صرف مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے بلکہ بسااوقات ہلاک ہو جاتا ہے اور بعض اوقات زہر کے اثر کی وجہ سے پاگل ہوجاتاہے اور بعض اوقات عالم دیوانگی میں خود کشی کر کے ہلاک ہوجاتا ہے۔لاہور شہرکاکوئی ایسا محلہ ،گلی ،بازار یا علاقہ نہیں ہے کہ جہاں پر کالے علم کے ذریعے کام کرنے والے جادوگر موجود نہ ہوں۔ معاشی ،سماجی اور گھریلو حالات سے پریشان ہو کر لوگ ان کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنا سب کچھ حتی کہ دین اور ایمان بھی گنواء بیٹھے ہیں جبکہ عورتیں گھریلو جھگڑوں جیسے شوہر بیوی کی ناچاقی ، ساس سسر کا مسئلہ، نندوں کے طعنوں سے تنگ آ کر ان کے پاس جاتی ہیں جن میں سے اکثر اپنی عزت بھی گنواء دیتی ہیں۔یہ کالے جادوگر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں اور خود کو عاملوں کا سردار ،جنات کا بادشاہ ،موکلوں کامالک اور زندہ پیر کامل اور جنات والے ظاہر کرتے ہیں اور اپنا تعلق بنگال،کیرالا، کالی گھاٹ ،تبت، نیپال اور سندر کے ہندو پجاریوں سے ملاتے ہیں جبکہ بعض جعلی عامل پرائز بانڈ کا نمبر دینے کا دھندا بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیکر ان سے ہزاروں روپے بٹور لیتے ہیں جبکہ بعض فراڈیوں نے اپنے ڈیروں پر ایسے مرد اور عورتیں ملازم رکھی ہوئیں ہیں جو ضروت مندوں کا ورغلا کر لاتے ہیں یہ لوگ مجبوروں سے پیسے بٹور کر ان سے کام ہونے کے عوض ایسی ایسی شرائط بھی رکھ دیتے ہیں جو ناممکن ہوتی ہیں ان لوگوں کی وجہ سے آج ہر دسواں گھر نت نئے مسائل میں مبتلا ہو چکا ہے اور معاشرے میں کفر اور شرک پھیلانے کا سبب بھی بن رہے ہیں ان کا خلاف آج تک کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے کوئی کاروائی کی لوگ ان کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں اور لٹتے ہیں گئے۔
ہندو مذہب میں کالی ماتا (کالی دیوی) ایک بربادی اور تباہی کی دیوی سمجھی جاتی ہے اس کا مندر مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں واقع ہے اور اسے کالی گھاٹ بھی کہا جاتا ہے۔کالی دیوی اصل میں درگا دیوی کے پسینے سے پیدا ہونے والی سات دیویوں میں سے ایک ہے جبکہ دیگر دیویاں شیراں والی دیوی ، ویشنو دیوی ، لکشمی دیوی ، سرسوتی دیوی ، اورسنتوشی دیوی ہیں۔کالی دیوی ایک کالے سیاہ رنگ کی عورت ہے جو آٹھ ہاتھ رکھتی ہے ایک میں تلوار دوسرے میں انسانی سر اور دیگر ہاتھوں میں بھی مختلف ہتھیار ہوتے ہیں اس کے گلے میں انسانی کھوپٹریوں کا ہار اور بدن پر انسانی چہروں اور بازؤں کا زیر جامہ ہوتا ہے اس کی آنکھیں سرخ ،گالوں اور سینے پر انسانی خون لگا ہوتا ہے جبکہ ایک انسانی لاش کے اوپر یہ کھڑی ہوتی ہے۔کالی ماتا کے ماننے والے اس کے چرنوں میں قربانی پیش کرتے ہیں جبکہ قدیم دور میں انسانوں کی قربانی بھی بھینٹ کی جاتی تھی اگرچہ اب بھی بنیاد پرست ہندووں کا یہی عقیدہ ہے اور وہ چھپ چھپا کر ایسا کام کرتے رہتے ہیں۔بھارت میں کئی لوگ ان دیوی دیوتا کے چرنوں میں انسانی بچوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔گائے،بھینس، بکرے یا بکری کے دست یعنی شانے کی ثابت ہڈی کالے جادو اور سفلی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ قصاب ہمیشہ اس پتلی اور چپٹی ہڈی کو گوشت الگ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔اس کے علاوہ عموما بکری کے دل پر بھی کٹ لگا دیتے ہیں کیونکہ ثابت دل پر عمل چلتا ہے اسی طرح کمہار کبھی بھٹی سے اتارا گیا تازہ برتن کبھی حوالے نہیں کرے گا اور اسے پکاکر ہی فروخت کرے گا۔سفلی اور کالا جادوکرنے والے لوگ جان پہچان کے کمہاروں سے کور برتن لے جاتے ہیں جبکہ کمہار کے کام میں استعمال ہونے والا دھاگا بھی کالے علم میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے. دست کی ہڈی عموما محبوب کو تابع کرنے یا مختلف کو برباد کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے ۔بعض اسے عورت کی کوکھ باندھنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں. چند عملیات میں عورت کو کوکھ باندھنے کیلئے تلے پر عمل کر کے اسے کنویں، دریا یا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کالے جادو اور سفلی عمل میں کسرت سے استعمال ہونے والی اشیاء درج ذیل ہیں۔گوگل،ماش کی ڈال،انڈے،سپاری،ناریل،زعفران،دھتورا، مور کے پر، کیز کے پھول، شہد،آک کا پودہ، کوے کے سیدھے بازو کا پر، گیدڑ کی آنکھ اور دم، الو کی بیٹ ، انسانی ناخن، جانوروں اور انسانوں کے جسم کی مختلف ہڈیاں، سیندور،لونگ، سوئییاں، ہینگ، کسی خوبصورت عورت کے بال جو تازہ تازہ مری ہو اور انسانی کھوپڑی وغیرہ۔
بنگال کا ایک جادو ” ڈھائیا” انتہائی سریع الاثر اور خطرناک تصور کیا جاتا ہے. اسے ڈھائیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ڈھائی پل یا سیکنڈ، ڈھائی منٹ، ڈھائی گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی دن میں اپنا اثر دکھاتا ہے اس سے زیادہ وقت نہیں لیتا. اس عمل کا سب سے کارآمد ہتھیار "ہانڈی”ہے جو کسی کی جان لینے کیلئے چڑھائی جاتی ہے۔ہانڈی کے اندر عموما چاقو،چھری،قینچی،استرا،سوئیاں اور ایک دیا رکھا جاتا ہے۔اس بارے میں مشہور ہے کہ کالے علم کے زور پر جلایا گیا یہ دیا اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ اگر کوئی طوفان بھی ہو تو یہ جلتا رہے گا اور منزل مقصود پر پہنچے گا۔اس طرح بھان متی کا جادو بھی انتہائی جان لیوا ہے اور اس کا توڑ بہت مشکل سے کیا جاتا ہے یہ بھی سفلی عمل کی ایک قسم ہے۔’’ڈھائیاں‘‘ کی طرح بھان متی بھی سفلی عمل ہے ،بھان متی پتلے پہ منتروں کا جاپ کر کے دشمن کو نقصان پہنچانے کیلئے کیا جاتا ہے اور عامل کوسوں دور بیٹھ کر پتلے کے ساتھ جو سلوک کرے گا اس کا دشمن پر بھر پور عمل ہوتا ہے بھان متی کے جادوگروں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ہر سال دیوالی کی رات اپنا جادو جگاتے ہیں اگر اس سال انہیں موقع نہ ملے تو سارے سال کیلئے بیکار ہو جاتے ہیں۔
کالا جادو کرنے والے عاملین لوگوں کو کالاجادو کرنے کیلئے عجیب وغریب طریقے بتاتے ہیں۔ بسا اوقات اس کیلئے انتہائی گھناؤنے کام بھی کیے جاتے ہیں۔ چند جادو مقدس کتابوں پر بیٹھ کر، اْن کے اوراق جلاکر کیے جاتے ہیں۔ بعض کیلئے 40روز تک نجس رہنے کی شرط رکھی جاتی ہے۔ کبھی کبھی جادو کرنے والے کو حرام گوشت بھی کھانا پڑتا ہے ،کسی کو بتائے بغیر ان جانوروں کی ہڈیوں کا سفوف بھی چٹایا جاتا ہے، کبھی کسی عورت کو قبرستان میں تازہ مردہ بچے کی لاش پہ نہانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ کسی عورت کو اندھیری رات میں دریا کے کنارے پر ویران جگہ نہانے کیلئے کہا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 84 قسم کے جادوئی عملیات مشہور ہیں جبکہ انفرادی ذہنی اختراعات اس کے علاوہ ہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں یہ عامل کھلم کھلا کاروبار کررہے ہیں۔ کئی عمل کالی دیوی، سرسوتی، ہنومان، کالی ماتا، مچھیا اور کالی دیوی کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ مچھیا اور کالی دیوی کا جادو صرف گند کھاکر ہوتا ہے۔ ایک عمل کیلئے مردوعورت کا آپس میں گناہ کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ بعض جادوئی تحریریں خون سے، بعض انسانی غلاظت سے لکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض عامل کسی ایسے ہندو مردے کی چتا کی چٹکی بھر راکھ بھی بھارت سے اسمگل کراکر پیش کرتے ہیں جس ہندو نے زندگی بھر گوشت نہ کھایا ہو۔ جادوگروں کے بقول یہ راکھ جس کو بھی کھلائی جائے اْس کی اذیت ناک موت کو کوئی نہیں روک سکتا۔ جادو کیلئے لوگوں کو مندروں میں بھگوان کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے اور وہی رسوم ادا کروائی جاتی ہیں جو ہندوؤں کی مذہبی عبادات کا حصہ ہیں۔
آج پاکستان میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے، وہیں کالے جادو جیسی ایک بہت بڑی لعنت بھی اندھیری رات کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان اُس کوہوتا ہے جس پر ’’کالا جادو‘‘ کروایا جاتا ہے۔کسی پر کالا جادو کروانے خواہش مند بعض یہ لوگ کونوں، کھدروں، ویرانوں، مندروں اور مرگھٹوں پر جا کر روپے اور زیورات دے کر کسی ’’اپنے‘‘ یا ’’غیر‘‘ پر کالا جادو کرواتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک شیطانی عمل ہے، لہٰذا اس کی اپنی تباہ کاریاں ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کالے جادو کی وجہ سے کسی کی کار چلتے چلتے اچانک کسی بڑے حادثے سے دو چار ہو جائے، اچھے بھلے کاروبار کا ایسا روگ لگ جائے کہ وہ کاروبار جگہ ویرانہ بن جائے، کسی کی شادی میں ایسی رکاوٹ ڈال دی جاتی ہے کہ وہ ساری زندگی بیاہ نہیں کر پاتا اور میاں بیوی صحیح سلامت ہونے کے باوجود بھی اولاد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی کے گھرکی دیواروں پر آپ ہی آپ ’’خون‘‘ کی لکیریں بن جاتی ہیں اور کسی کی جان کالے جادو کی مدد سے اس کے سر پر کسی مندر یا مرگھٹ سے اُڑائی گئی ’’ہانڈی‘‘ آ کر لیتی ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایک منظم ’’کالا جادو مافیا‘‘ کام کررہاہے۔ دوسری طرف جادو نگری کی چوکھٹوں پر بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان مرد اور خواتین، جادو کی تباہ کاریوں اور اپنے برے انجام سے غافل ہو کر جائز اور ناجائز کاموں کیلئے چکر کاٹتے صاف نظر آئیں گے۔دوسری طرف کراچی،حیدرآباد،سکھر،ملتان،لاہو،فیصل آباد،راولپنڈی کیبسوں، دیواروں اور پلوں پر ہندو اور بنگالی عاملوں کے چلتے پھرتے اشتہارات دکھائی دیتے ہیں جن میں ان عاملوں کے دعوے کے مطابق، کسی شخص یا عورت کی مکمل ’’کایا پلٹ‘‘ کی جاسکتی ہے۔ ہر تمنا پوری ہو گی ،مشکل کیسی بھی دور ہو گی ،ہر کام گارنٹی کے ساتھ، صرف ایک رات کے عملیات سے آپ کی پریشانی کا گارنٹی سے مکمل خاتمہ۔ہمارا علم دنیا کے ہر کونے میں اثر کرتا ہے، جہاں کسی کا علم نہیں جاتا۔ عرصہ 20 سال سے کالے و سفلی و علم جفر کے بے تاج بادشاہ عامل نجومی بابا کا چیلنج۔ تعویز کا اثر چند گھنٹوں میں۔پہلا تعویز آپ کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ ہر پریشانی کا حل۔ کاروباری بندش، پسند کی شادی، گھریلو ناچاقی، جادو ٹونہ، جن بھوت کا سایہ، بیرونی ملک کا سفر، اولاد کی بندش، تعویزات کا اثر، میاں بیوی کی ناراضگی، رشتوں کی بندش، ناممکن کو ممکن بنائیں، جو چاہیں سو پائیں، آج کی آج آزمائیں۔
روحانی علاج ومشورے کالے سفلی علم کی کاٹ کے ماہر، تمام مسائل کا فوری یقینی اور گارنٹی کے ساتھ روحانی علاج، پہلی ملاقات میں پریشانی ختم، پرانے تجربہ کار، ماہر علم رمل، ماضی، حال، مستقبل، کیا پریشانی ہے؟ کب تک رہے گی؟ اس کا حل کیا ہے؟ پھر بتائیں گے آج ہی ملیں۔ کامل بابا، بنگال کا چیختا چنگھاڑتا کالا جادو، میرے آگے جادو ٹونہ بولتا ہے، ماسٹر آف دا بلیک میجک، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں۔
تہلکہ! چٹ منگنی پٹ بیاہ، والدین کی دہلیز پر مرجھائی ہوئی کلیاں کیوں؟ جہیز بھی ہو زیور بھی ہو۔ پسند کا محبوب نہ ہو تو سب بیکار ہے۔ ہر مسئلہ کا حل ایک منٹ سے 9منٹ کے اندر۔ پیر صاحب کی کامیاب چلہ کشی کا کرشمہ رابطہ شاہ صاحب۔ الحاج پرویز کامل، لندن، امریکا، آسٹریلیا، فرانس، بنگال، انڈونیشیا، سعودی عرب کے کامیاب دورے کے بعد اب آپ کے شہر میں۔
چیلنج! نفرت محبت میں بدل جائے گی۔ تفکرات سے بے نیاز ہوکر زندگی بسر کریں۔ میرا پاکستان کے تمام بڑے بڑے دعوے کرنے والے نام نہاد علم سے ناواقف، غیرمستند، اَن کوالیفائیڈ، جعلی عاملوں، پروفیسروں کو کھلا چیلنج! جو میرے تعویز کی کاٹ کرسکے پچاس ہزار روپے انعام حاصل کرے۔
روحانی معالج، جوابی لفافہ کے ساتھ لکھیں۔ ہر قسم کی پریشانی کا حل ایک گھنٹے میں گارنٹی کے ساتھ۔ گھر بیٹھے بٹھائے، برصغیر پاک و ہند کے مایوس اور ٹھکرائے ہوئے حضرات کے لیے کھلا پیغام! جو لاکھوں برباد کرکے ابھی تک عاملوں کے در پر چکر لگارہے ہیں۔ میرے آباؤاجداد کے بخشے ہوئے علم سے فائدہ اْٹھائیں۔ بھارت، ڈھاکہ، جاوا، سماٹرا، یونان، مصر، شام اور انڈونیشیا میں رہ کر علم نجوم و عملیات کا نچوڑ۔ فائدہ اٹھائیں۔ پریشانی کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ پہلی فرصت میں ملاقات کریں۔ حقیقت میں مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ عالمی شہرت یافتہ گولڈ میڈلسٹ روحانی ڈاکٹر و اسکالر شاہ جی سے ملاقات کریں۔ اسم اعظم کا کرشمہ، تنگی رزق و معاشی پریشانی کا علاج، روحانی و جسمانی آسٹرو پامسٹ سے ملیں۔
الحاج پروفیسر صاحب 30سال سے دْکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کررہے ہیں۔ کالے علم کی کاٹ و پلٹ کے ماہر جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ طلسماتی عملیات اور پراسرار قوتوں کا کرشمہ۔ نااْمیدی کفر ہے۔ ہر کام گارنٹی، ذمہ داری اور رازداری سے کیا جاتا ہے۔ آج ہی ملیں، عامل پروفیسر۔
یہ ایک جھلک ہے جس سے ہمارے ملک کے اخبارات، رسائل اور شاہراہیں دیمک زدہ ہیں۔ یہ کرشمہ ساز قوتوں کے مالک افراد ملک کے طول وعرض میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سہانے خواب اور تمنائیں فروخت کرتے ہیں۔ جو ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔ اِس کے خریدار وہ مجبور ولاچار لوگ ہیں جو ایک بار اپنی قسمت ضرور آزمانا چاہتے ہیں۔
اس میں جاہل اور عاقل کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ کوئی بیٹی کے بالوں میں اْترتی چاندی دیکھ کر مجبور ہے تو کوئی بے روزگاری سے سڑکیں ناپ ناپ کر پریشان حال ہے۔ کوئی سکون کو تلاش کررہا ہے تو کوئی راتوں رات امارت کی منزلیں طے کرلینا چاہتا ہے۔ آج کے بازار کی ہرچیز بکتی ہے۔ ان بازی گروں کے آستانوں اور نقلی پیر خانوں پر جیسے دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں۔ جسے ہر پیاسا یہاں نہال ہو جائے گا۔ ہر پریشانی اور بیماری کا حل جیسے ان کی پٹاری میں موجود ہے۔ اور ستم رسیدہ ہیں وہ لوگ جو علم و عمل کی شاہراہ سے بھٹک کر مافوق الفطرت کرامتوں کیلئے بیابانوں میں دھکے کھارہے ہیں۔ قابل رحم ہیں وہ لوگ جو بابا کی پھونک اور ایک تعویز کو ساری پریشانیوں کا حل سمجھ بیٹھے ہیں۔ قابل توجہ ہے اْن کی بے بسی جو ایک رب کے در کو چھوڑکر دردر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ وہ یہ کیوں نہیں سمجھنا چاہتے کہ اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو کون ہے جو اْن کے مسئلوں کو حل کر دے۔ اگر ڈاکٹر شفا بانٹنے والے ہوتے تو کیوں خود دارِفانی سے کوچ کر جاتے؟ اگر طوطے ہی انسان کی قسمت بتانے پر قادر ہوتے توہ خود کو اس بند پنجرے کی سلاخوں سے خود کو آزاد پہلے کراتے اور قسمت کے حال بتانے والے یوں فٹ پاتھوں پر اپنی قسمت کا رونا نہ رو رہے ہوتے۔
انسان جب حد سے زیادہ تعیش پسند اور مادہ پرست ہو جائے تو کچھ چیزیں اس کی فطرت میں خود بخود در آتی ہیں، مثلاً خود غرضی، احسان فراموشی، لالچ، حسد، کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسوں کے حصول کی خواہش، اور ان سب کے علاوہ میڈیا کا اثر، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک پلاننگ کے تحت معاشرے سے سادگی، حیا، وقار اور رکھ رکھاؤ کا جنازہ نکالا جا رہا ہے. زیادہ دور نہیں بس چالیس پچاس سال پیچھے نظر دوڑا لیں، امیر سے امیر اور غریب سے غریب گھرانوں میں بھی ایک وقار، تمدن، رکھ رکھاؤ اور تہذیب چھلکتی تھی، اپنے اپنے ماحول اور خطے کے مطابق ہر ایک بساط بھر وضع دار اور انٹلیکچوئل ہوا کرتا تھا، پھر کیا ہوا کہ اس میڈیا نے عورتوں کو کپڑوں، زیورات کی نمائش، ساس بہو کے جھگڑوں کے پیچھے لگا دیا اور گھر اجاڑنے، مشترکہ خاندانی نظام کے خاتمے کے وہ وہ طریقے پڑوسی ملک کے ڈراموں کے ذریعے سکھائے جانے لگے جو کسی کو معلوم نہ ہوتے تھے. دیکھتے ہی دیکھتے ملکی میڈیا بھی اسی لپیٹ میں آ گیا، مردوں کو انھی عورتوں نے پیسے کا پجاری اور ہوس کا غلام بنا دیا. ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی اس خواہش نے انتشار اور افراتفری پیدا کر دی ہے۔رشتوں میں خود غرضی اور حسد در آیا، پھر بات جعلی پیروں سے ہوتی ہوئی دوسرے مذہب کے عاملین کے آستانوں اور ٹونوں تک جا پہنچی، فلاں دیورانی اپنے رشتے داروں میں سے بہو لانا چاہتی ہے کیسے روکا جائے؟ وہ جیٹھ زیادہ کما رہا ہے میرا میاں کیوں نہیں، تعویذ لاؤ کہ اس کا کاروبار تو ٹھپ ہو، خوامخواہ زیورات سے لدی رہتی ہے، ہر روز نیا سوٹ، فلاں ہمسائی کا شوہر اس محکمے میں اعلی افسر کیوں ہے؟ اس کزن کے بچے اتنا اچھا کیوں پڑھ لکھ گئے؟ کہاں سے آئیں یہ غلاظتیں، اتنی نفرت، وہ خاندانی نجابت کہاں گئی؟ کہاں کہاں پر کرپشن اور غیر ذمہ داری کا رونا رویا جائے، حرام کا پیسہ حرام میں ہی جاتا ہے سو جادو، تعویذات پر خرچ ہونے لگا ہے ،معاشرے خود بخود ایسی چیزوں کو جگہیں دینے لگتے ہیں، یہی ہمارے ہاں بھی ہوا ہے، غیر محسوس طریقے سے۔ میں نے اعلیٰ خاندانی رئیسوں، سیاسی خانوادوں کی بیگمات اور گھر کی خواتین کو ان جادوگروں اور ٹونے کرنے والوں سے تعلقات نبھاتے سنا اور پڑھا ہے۔ ایسی آکسفورڈ اور کیمبرج کی پڑھائی کا کیا فائدہ جو آپ کو دین دے سکے نہ دنیا اور نہ ہی آپ کو اس جادو اور سفلی علم جیسی جہالت سے چھٹکارا دلا سکے۔
ملک بھر میں دن بدن بڑھتے ہوئے حسد کی وجہ سے کالے جادو کے ذریعے خواتین کو بانجھ بنانے کا مکرہ دھندا عروج پرگیا ہے۔ ملک بھر میں خاندانی جھگڑوں، جائیداد اور کاروباری تنازعات میں اپنے مخالف کو نشانہ بنانے کیلئے کالا جادو کرانے کا رجحان بہت بڑھ چکا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں سفلی عاملوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب سفلی عملیات کے توڑ کیلئے مسلمان عاملین میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان روحانی عاملوں کی بیشتر تعداد مختلف مدارس کے علماء پر مشتمل ہیں۔ تاہم سفلی عاملوں کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ کسی شخص کو بیمار کرنے، کاروباری، بندش یا گھریلو ناچاقی پیدا کرنے کیلئے سفلی جادوگر، دس ہزار سے پچاس ہزار روپے کی رقم لیتے ہیں۔ جبکہ جان لیوا عملیات کے لئے وہ گاہک سے بھاری رقم کے علاوہ بکرے کی فرمائش بھی کرتے ہیں۔ یہ بکرا، جادوگر اپنی زیر کنٹرول بد روحوں یا جنات کو بطور ’’بھینٹ‘‘ چڑھاتے ہیں۔ ملک کے بعض علاقوں میں افسوسناک طور پر بعض گمراہ مسلمانوں میں بھی سفلی علم سیکھنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ پہلے سفلی علم کرنے والوں میں غیر مسلموں کی شرح 90 فیصد اور مسلمانوں کی دس فیصد تھی۔ اب مسلمانوں کی شرح بڑھ کر 20 فیصد ہو گئی ہے۔ تاہم سفلی جادوگر جیسے ہی اس مکروہ عمل کا آغاز کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے خارج ہو جاتا ہے۔ غیر مسلموں میں ہندوں کی کوہلی، بھیل اور میگھوار قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے زیادہ سفلی عملیات کرتے ہیں۔قرآن مجید اور حدیث نبویؐ کی روشنی میں جادو کا ہونا ثابت ہے۔ قرآن حکیم سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے جادو کی شروعات یہودیوں نے کی تھی۔ اگر کوئی مسلمان مرد یا عورت جادو سیکھتا ہے یا کسی پر کرواتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ اپنی زندگی میں خدا سے سچی توبہ نہ کرے تو قیامت میں اُس کیلئے تباہی اور بربادی لکھ دی گئی ہے۔ جادو کی خواہ کتنی بھی قسمیں ہوں ان کا سیکھنا اورکسی پر کروانا ہر حال میں حرام ہے۔ہمارے معاشرے کے کچھ افراد زبان سے کلمہ پڑھنے کے باوجود بھی عقیدے کے اتنے کچے ہوتے ہیں کہ وہ حسد،رقابت، جلن اور اپنی محرومیوں کا بدلہ ایک خوشحال اور ہنسے بستے گھرانے یا فرد سے اس طرح لیتے ہیں کہ وہ ذہنی اور مالی لحاظ سے تباہ حال اور کنگال ہو کے رہ جاتا ہے۔
ہندو سفلی عاملین اس کیلئے یہ ’’کالی کے منتر‘‘ کو الٹا پڑھتے ہیں۔ جبکہ مسلمان (نام نہاد) اس مذموم عمل میں قرآنی آیات کو (نعوذ باللہ) الٹا پڑھتے ہیں۔ سفلی عمل کرنے والے قبرستان یا شمشان گھاٹ میں بیٹھ کر ’’چلہ کشی‘‘ کرتے ہیں۔ یہ ’’چلہ‘‘ چند ہفتوں کا بھی ہوتا ہے اور کئی ماہ کا بھی۔ اس دوران جادوگر مخصوص منتر پڑھتے رہتے ہیں۔ ’’چلہ کشی‘‘ کا وقت پورا ہونے کے بعد ان کو ’’شکتی‘‘ مل جاتی ہے۔ یہ شکتی دراصل بد روح ہوتی ہے جو چڑیل یا پھرکسی حیوان کی شکل میں جادوگر کے ساتھ رہتی ہے۔ جب اس شکتی سے کام لینا ہوتا ہے تو سفلی عامل کسی ویران جگہ جو گھر کے اندر ایک مخصوص کمرہ بھی ہو سکتا ہے میں بیٹھ کر مخصوص منتر پڑھتا ہے اور انگاروں پر لوبان یا کوئی اور سفوف ڈالتا رہتا ہے۔ اس دوران وہ ایک کاغذ تحریری یا زبانی طور پر بد روح کو حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے۔ اس کی تعمیل میں اس کے زیر کنٹرول بد روح، سائے کی شکل میں حاضر ہوجاتی ہے۔ جادو گر اس بد روح کو مطلوبہ شکار کا نام، اس کی والدہ کا نام اور پتہ سمجھا دیتا ہے اور اسے مطلوبہ شخص کے جسم میں داخل ہونے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ بدروح انسان کے جسم میں دھویں کی شکل میں داخل ہو جاتی ہے اور دماغ، دل اور دیگر جسمانی اعضاء کو متاثر کرنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سفلی عمل کا شکار ہونے والے شخص کی دماغی حالت بگڑنے لگتی ہے اور مختلف جسمانی امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ بد روح کسی کو فوری طور پر ہلاک تو نہیں کر سکتی لیکن اس کے قبضے میں آنے والا ذہنی و جسمانی طور پر کمزور ہونے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ اگر اس سفلی عمل کا توڑ نہ ہو سکے تو متاثرہ شخص چند ماہ کے اندر ہلاک ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو فوری طور پر مارنے والا سفلی عمل صرف ہندو خاکروب یا کوہلی طبقے کے جادوگر کرتے ہیں، جس میں مخصوص جادوئی ہانڈی بھجوائی جاتی ہے یا سوئیاں لگے پتلے کو قبر کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔
ملک کے مختلف شہروں میں موجود قبرستان سفلی جادوگروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ جہاں کالے جادو کے ماہر نہ صرف مکروہ عملیات کی ’’چلہ کشی‘‘ کرتے ہیں بلکہ ان قبرستانوں میں خواتین کی لاشیں نکال کر ان کی بے حرمتی کرنے کی گئی گھناؤنی وارداتیں بھی ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ سفلی عاملین رات کو ان ویران قبرستانوں میں بیٹھ کر بد روحوں کو اپنے قبضے میں لینے کا عمل کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ سفلی عامل چھوٹے بچوں کی تازہ لاشوں کو قبروں سے نکال کر یا ہندوؤں کے شمشان گھاٹ میں بچوں کی چتاکی راکھ سے مخصوص عمل کے ذریعے ’’کلوہ‘‘ کی طاقت حاصل کرتے ہیں جس کا شمار سفلی علوم کی خطرناک ترین جادوئی قوتوں میں ہوتا ہے۔ ’’کلوہ‘‘ کی رفتار اور طاقت جنات سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ سے کہ سفلی کے جان لیوا عمل کیلئے ’’جادوئی ہانڈی‘‘ بھی کلوہ سے بھجوائی جاتی ہے۔ جادوگروں کے قریبی ذرائع مطابق کلوہ کی رفتار انتہائی تیز ہونے کی وجہ سے ہدف سے پہلے اگر غلطی سے کوئی اور شخص درمیان آجائے تو جادوئی ہانڈی ٹکرانے سے اس کی جان جا سکتی ہے۔ بعض کالے جادوگر ’’کلوہ‘‘ کو ’’کالی ماتا‘‘ کی فوج بھی قرار دیتے ہیں۔ ہندو دھرم کے عالموں کے مطابق ’’کلوہ‘‘ نوزائیدہ بچے کی ’’آتما‘‘ (روح) ہوتی ہے جو مرنے کے بعد تین دن تک لاش کے قریب بھٹکتی رہتی ہے۔ اسے سفلی عامل مخصوص عمل کے ذریعے اپنے قبضے میں کر لیتے ہیں اور پھر ان سے گھناؤنے کام کراتے ہیں۔ دوسری جانب مسلمان روحانی عامل ’’کلوہ‘‘ کو انسان کا ’’ہمزاد‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ سفلی عامل مختلف آبادیوں میں گھومتے رہتے ہیں اور جیسے ہی اسے کسی بچے کے انتقال کی خبر ملتی ہے اس کے گھر کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ بعدازاں بچے کے جنازے کے پیچھے پیچھے سفلی منتر پڑھتے ہوئے قبرستان تک پہنچتا ہے اور جب تدفین کے بعدلوگ قبرستان سے رخصت ہو جاتے ہیں تو وہ بچے کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ ’’میں رات کو آؤں گا، تیار رہنا‘‘ آدھی رات کو سفلی جادو گر دوبارہ قبرستان لوٹتا ہے اور مطلوبہ قبر کے پاس ’’منڈل‘‘ (حفاظتی حصار) بنا کر بیٹھ جاتا ہے اور مخصوص سفلی منتروں کا جاپ شروع کر دیتا ہے،عمل مکمل ہونے پر قبر سے بچے کی لاش باہر نکل آتی ہے۔ دوسری جانب بیشتر سفلی جادوگروں کا موقف ہے کہ قبر سے بچے کی لاش نہیں نکلتی، بلکہ اس کا کلوہ(ہمزاد) باہر آتا ہے۔سفلی جادوگروں سے رابطے میں رہنے والے ایک ذرائع کے مطابق مردہ بچے کے کلوے (ہمزاد) سے مخاطب ہو کر سفلی جادوگر اسے روزانہ ہفتہ وار یا ماہانہ بنیادوں پر موتی چور کے لڈو یا دیگر غذائیں فراہم کرنے کے وعدے پر اسے ’’نوکری‘‘ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ کلوے سے سفلی عامل، جان لیوا جادوئی ہانڈیاں شکار تک بھجواتا ہے چوریاں کراتا ہے، لوگوں کو تنگ کرتا ہے، دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور دیگر کئی گھناؤنے کاموں میں استعمال کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق کلوہ حاصل کرنے کا رجحان سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے سفلی عاملین میں کافی زیادہ ہے۔ سفلی جادوگر اپنی شیطانی قوت بڑھانے کیلئے یہ مکروہ کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ جادو گر یہ قو ت حاصل کرنے کیلئے بچوں کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جادوگروں کے مطابق خطرناک ترین سفلی عمل چتاکی راکھ سے کئی جاتے ہیں۔ جادوگر چتاکی راکھ سے سفلی طاقتیں حاصل کرنے کیلئے چاند کی پہلی سے 8 تاریخ کے درمیان، شمشان گھاٹ میں بیٹھ کر چلہ کشی کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران انسانی کھوپڑی میں چاول اُبالے جاتے ہیں۔ جادو گر اپنے گردمنڈل (گول دائرہ) بنا کر بیٹھتا ہے کیونکہ یہ حصار سے حملہ آور ہونے والی بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔ مذکورہ تاریخوں کی سیاہ راتوں میں سفلی عامل ، چتاکی راکھ (جلائے گئے ہندو مردے کی ہڈیوں کی راکھ) سے خطرناک سفلی عملیات سرانجام دیتا ہے۔چتاکے جلنے کے بعد مرنے والے کے عزیز و اقارب اس کی راکھ کو سفلی عملیات میں استعمال ہونے سے بچانے کیلئے اس کی کھوپڑی اور دیگر سالم رہ جانے والی ہڈیوں کو توڑ دیتے ہیں۔ تاہم سفلی عملیات کرنے والے جادوگر اور سفلی عملیات کرانے کے خواہشمند، چتاکی راکھ ٹھنڈی ہونے کے بعد اسے حاصل کرنے کیلئے شمشان گھاٹ کے چکر کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ سفلی جادو میں گندے بیر یا موکلات کا حصول بنیادی جز قرار دیا جاتا ہے۔ سفلی علوم کے قریبی ذرائع کے مطابق گندے موکلات کے حصول کے دو بنیادی طریقے رائج ہیں۔پہلے طریقے میں کافر جنات کی تعریف و توصیف بیان کر کے انہیں خوش کیا جاتا ہے تاکہ وہ مختلف عملیات کی کامیابی کیلئے عامل کی مدد کریں۔ دوسرے طریقے میں عامل بھٹکتی روحوں، شمشان گھاٹ میں مدفون مردوں کے ہمزاد اور کافر جناب کو اپنے کنٹرول میں لے کر ان سے اپنے احکامات پر عمل کراتا ہے۔ دوسرے طریقے کو اپنانے کیلئے سفلی عامل شمشان گھاٹ میں چاند کی پہلی سے 8 تاریخ کی درمیانی راتوں کی چلہ کشی کرتا ہے۔ ’’ایسے لوگ جو اپنی کسی شدید خواہش کی تکمیل کے دوران موت کا شکار ہو جاتے ہیں ان کی روحیں بے قرار رہتی ہیں اور دنیا میں بھٹکتی پھرتی ہیں‘‘ ہندو دھرم کی کتاب ’’سری گرو گرنتھ سہائے‘‘ میں درج عبارت ’’انت کال جو لکشمی سمرے، ایسی چنتا میں جو مرے، سرب جون دل دل اترے‘‘ کو بنیاد بنا کر ہندؤ سفلی عامل کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے مکان کی تعمیر کے دوران مر جائے تو اس کی روح اسی مکان میں بھٹکتی رہتی ہے۔اس کے علاوہ شمشان گھاٹ یا ہندو قبرستانوں میں مسلمانوں کی طرز پر سیدھی لٹا کردفنائے گئے ہندوؤں کی لاشیں بھی سفلی عاملوں کیلئے آسان ہدف ہوتی ہیں۔ سفلی عامل شمشان گھاٹ میں چلہ کشی کر کے ان بھٹکتی روحوں کو قابو کرتے ہیں۔ تاہم ہندو عقائد کے مطابق سیدھی بیٹھی حالت میں دفن کئے گئے ہندو عاملوں کی روحوں کو قابو کرنا سفلی عاملوں کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ شمشان گھاٹ میں قائم سمادھیوں (قبروں) کے قریب بیٹھ کر روحوں ح کو قابو کرنے کے عمل کو ’’سمادھیوں میں ہند آتماؤں کو پرکٹ (قابو) کرنے کا عمل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسے شمشان گھاٹ جگانے کا عمل بھی کہا جاتا ہے۔
ہندی علوم کے ماہرین کے مطابق سفلی عامل بننے کیلئے بھیروں اور کالی ماتاکے منتروں کا مخصوص جاپ کرنا پڑتا ہے۔ اس میں صرف تجربہ کار اور منجھے ہوئے سفلی عامل ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اس عمل میں ناکام ہو جانے کی صورت میں عامل، ہلاک یاپاگل ہو جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہندو اپنے مردوں کو جلانے کے بعد سلامت رہ جانے والی ہڈیوں کو بانس کی مدد سے توڑ دیتے ہیں۔ خاص طور پر کھوپڑی کو لازمی توڑا جاتا ہے تاکہ سفلی عملیات کرنے یا کرانے والے اسے جادو گری کیلئے استعمال نہ کر سکیں۔ اس کے باوجود چتاکی راکھ ٹھنڈی ہونے کے بعدسفلی عاملین یا سفلی عامل کرانے والے شمشان گھاٹ آکر ورثا سے مردے کے جسم کی مختلف ہڈیوں کی راکھ طلب کرتے ہیں۔ پہلے پہل راکھ کے بدلے پیسوں کی آفر کی جاتی ہے۔ نہ ماننے پر دھونس دھمکی سے یا زبردستی راکھ لینے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ سفلی عملیات سے واقف عاملین کے مطابق چتاکی راکھ سے نہ صرف سفلی نقوش تحریر کئے جاتے ہیں بلکہ اس کو مٹی میں ملا کر اس سے بنائے گئے پتلوں پر سوئیاں چبھو کر کسی مطلوبہ شخص کو ہلاک کرنے کے علاوہ جسمانی اعضاء اور بیماریوں میں بھی مبتلا کیا جاتا ہے۔ جبکہ چتا کی راکھ سفلی عملیات کا شکار بنائے جانے والے افراد کو گھول کر بھی پلائی جاتی ہے۔ شمشان گھاٹ میں کئے جانے والے سفلی عملیات میں خواتین کو بانجھ کرنے کا سفلی عمل بھی شامل ہے جس کیلئے تازہ انسانی لاش کا جگر جلا کر اس پر طلسمی عملیات کئے جاتے ہیں۔
سفلی عملیات کی کامیابی کیلئے ’’گوروچند‘‘ نامی جز کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ گورو چند ’’کپلا گائے‘‘ (8 دانتوں والی گائے) کے پتے میں پائے جانے والے زہر میں پرورش پاتا ہے۔ جسے ماہر ’’کمیل دار‘‘ (قصاب) پتے سے نکالتے ہی اپنے منہ میں رکھ لیتے ہیں۔ اپنی زندگی داؤ پر لگا کر حاصل کئے گئے ’’ گورو چند‘‘ کو قصاب اپنی جان سے بھی عزیز رکھتے ہیں۔ سفلی عامل اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یا موکلات کے ذریعے بھی اسے حاصل کرتے ہیں۔ ہندو عاملوں کا موقف ہے کہ جس عمل میں ’’گورو چند‘‘ شامل کر لیاجائے اس کی کامیابی سو فیصد یقینی ہو جاتی ہے۔ سفلی عامل ’’پشے نقشتر‘‘ (جادوئی ساعتوں کی گھڑی) کی ڈیڑھ گھڑی میں گورو چند کی مدد سے انتہائی مہلک عملیات سر انجام دیتے ہیں۔ بھارت میں ’’گورو چند‘‘ کی بہت تھوڑی سی مقدار بھی لاکھوں روپوں تک فروخت ہوتی ہے۔
سفلی عملیات کی کامیابی کا دارومدار جادوگر کی مہارت اور تجربے کے علاوہ سفلی عملیات کے لیے استعمال کئے جانے والے مرکبات پر بھی ہوتا ہے۔ خاص طور پر ’’دھوپ‘‘ (ایک خاص قسم کی دھونی) تقریباً ہر سفلی عمل میں استعمال کی جاتی ہے۔ دھوپ کی دھونی کا مرکب گھگھر، کوڈیا،لوبان، آساپوری، ہرمل اور گورو چند کی آمیزن سے تیار کیا جاتا ہے۔ دھوپ کی دھونی تیار کرنے کیلئے مذکورہ بوٹیوں اور گورو چند کا اصلی ہونا بھی ضروری شرط ہے۔ ہندو عاملوں کے قریبی ذرائع کے مطابق کسی ایک بھی جز کے جعلی یا غیرمعیاری ہونے کی وجہ سے عمل ناکام ہو جاتا ہے۔ تاہم سفلی عملیات اور ہندو مذہب کے تعلیم کردہ دیگر عملیات میں گورو چند کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ گورو چند کپلا گائے کے پتے میں پائے جانے والے زہر میں پرورش پاتا ہے۔ کپلا گائے 8 دانت والی اس بوڑھی گائے کو کہا جاتا ہے جو عمر کی آخری حد پر ہو۔ 8 دانت کی حامل ہر بوڑھی گائے، کپلا نہیں ہوتی بلکہ اوسطاً 50 سے 70 گائیوں میں سے کوئی ایک کپلا گائے ہی اپنے پتے کے اندر گورو چند پالتی ہے۔ گورو چند کی اہمیت سے واقف قصاب گائے کا پیٹ چیر کرسب سے پہلے پتے کو ٹنول کر گورو چند کی موجودگی کا پتہ لگاتا ہے۔ اگر پتے میں گورو چند موجود ہو تو ٹنولنے پر پتے کے اندر ڈلی یا لڈو نما سے محسوس ہوتی ہے۔ قصاب، اس خاص پتے کو چیرا لگا کر فوری طور پر پانی کی دھار میں ڈبو دیتا ہے۔ پتے کے زہر کو پانی میں بہہ جانے کے بعد قصاب ’گورو چند‘‘ کو پھرتی سے منہ میں بند کر لیتا ہے۔ چند لمحوں تک بندر رہ کر منہ کی گرمی سے ’’گورو چند‘‘ برف کی سخت ڈلی جیسی حالت میں آجاتا ہے جبکہ پتے سے نکلتے وقت گورو چند کسی بلبلے کی طرح نازک ہوتا ہے۔ گورو چند کی 2 اقسام ایک قسم گہرے کھتئی رنگت کی اوردوسری ہلکی بھورے رنگت کی ہوتی ہے۔ گورو چند کا حصول قصاب کی چابک دستی پر منحصر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کی تاخیر سے گورو چند ضائع ہو جاتا ہے۔ گہرے کھتئی رنگ کا گورو چند، پتے سے نکال کر فوری طور پر منہ میں نہ رکھا جائے تو فوری طور پر تحلیل ہو جاتا ہے۔جبکہ ہلکی بھوری رنگت کا گورو چند فوری طور پر منہ میں نہ رکھنے سے پتھر کی مانند سخت ہو کر اپنا اثر کھو کر بے کار ہو جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورو چند کا حصول صرف جدی پشتی، خاندانی قصائیوں کا ہی خاصہ ہے، عام پیشہ ور قصاب اس معاملے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر حاصل کیا گیا گورو چند قصاب اپنی جان کی طرح عزیز رکھتے ہیں اور اسے بطور خاص اپنے گھروں میں سنبھال کے رکھتے ہیں۔ ہندی علوم کے ماہر کے مطابق سفلی عامل عام سفلی عملیات سمیت پشے نقشتر کی ڈیڑھ گھڑی میں کئے جائے والے ہلاکت خیز عملیات میں ’’گوروچند‘‘ کو بطور خاص استعمال کرتے ہیں تاہم گورو چند کی افادیت اور اہمیت سے صرف تجربے کار سفلی جادو گر ہی واقف ہیں۔ اسی بنا پر ان کے عملیات میں طاقت اور کامیابی کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔27نقشتروں (ستاروں) کے دورانیوں میں سے پشے نقشتر کی ڈیڑھ گھڑی (ڈیڑھ گھنٹہ) تمام نقشتروں کے دورانیوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ سفلی علوم کے ماہرین نے سفلی عملیات کیلئے 27 مخصوص ستاروں کے طلوع کے دورانیوں کا نقشہ تیار کر رکھا ہے۔ ان میں شامل ہر نقشتر کے طلوع کے دورانیے کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ تاہم ستائیسویں نقشتر کے طلوع کے ڈیڑھ گھنٹے اور گورو چند کی مدد سے کئے جانے والے عملیات کے ملاپ سے سفلی عامل خطرناک ترین اور ہلاکت خیز عملیات سر انجام دیتے ہیں۔ پشے نقشتر کی ڈیڑھ گھڑی میں گورو چند کی مدد سے کی جانے والا سفلی عمل عموماً کسی کو کلی طور پر برباد کرنے جسم کو مفلوج کرنے یا کسی کو اذیت ناک موت سے ہمکنار کرنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ مذکورہ ڈیڑھ گھڑی میں سفلی عامل کسی سنسان مقام پر بیٹھ کر انسانی کھوپڑی کو لٹکا کر اس کے نیچے دھوپ کی دھونی جلانے کے بعد، گورو چند کے محلول سے انسانی کھال یا ہڈیوں پر سفلی نقوش بناتا ہے۔ عام طور سے اس عمل کیلئے کسی تازہ مردے کی نوچی ہوئی کھال یا بائیں ٹانگ کا گوشت اور بائیں ران کی ہڈی پر طلسمی عملیات کرتا ہے۔ اس مکروہ عمل کو ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کر لیا جاتا ہے۔ جس کے بعد سفلی عمل پڑھی ہوئی کوئی شے عمل کرانے والے کو دے کر اسے قبرستان میں پھنکتے، باندھنے یا قبر میں گاڑنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ گورو چند کو ’’گؤ لوچن‘‘ اور ’’گھگروچن‘‘ بھی کہا جاتا ہے، سفلی عامل اسے مختلف طریقوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اگر کوئی قصاب فروخت کرنے پر آمادہ ہو جائے تو منہ مانگی قیمت پر خرید لیتے ہیں۔ بصورت دیگر انپے کسی گرگے کے توسط سے کسی حیلے بہانے سے حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ سفلی عملیات میں عروج کی حد تک مہارت رکھنے والے سفلی عامل اپنے موکلات کے ذریعے کپلا گائے کو ہلاک کرا کے گورو چند حاصل کر لیتے ہیں۔ گورو چند ایک چھٹانک سے لے کر ایک پاؤکے وزن کا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سفلی عامل، سفلی عملیات کیلئے گہرے کھتئی رنگ والا گورو چند ہی استعمال کرتے ہیں ۔ بھارت میں گورو چند کی اہمیت پاکستان کی بہ نسبت بے حد زیادہ ہے۔ اسی سبب گورو چند وہاں ماشے اور تولے کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے۔ جس کی قیمت لاکھوں روپے فی تولہ تک مقرر ہے۔ اندرون سندھ کے کئی شہروں میں بھارت سے درآمد کردہ گوروچند دستیاب ہے۔ تاہم اس کے اصل یا جعلی ہونے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
سفلی جادوگروں کے قریبی ذرائع کے مطابق بیشتر سفلی عاملوں کے کوئی مستقل ٹھکانے نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی بے سکونی کے سبب کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے اور آوارہ گردی میں ہی خوش رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ انہیں اپنے جادو کا شکاربننے والے افراد اور دیگر رقیب جادو گروں سے جان کا خطرہ بھی ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ تاہم سفلی علم کرانے والے افراد ان ’’آوارہ ‘‘ جادوگروں کے عارضی ٹھکانوں سے باخبر ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی ویرانے یا قبرستان میں ان کا کھوج نکال ہی لیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے آوارہ جادو گروں کی پہچان بھی عام آدمی کیلئے انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ وہ ظاہری حلیے سے ہیروئچی یا پاگل نظر آتے ہیں۔ ویران قبرستان ان کی پسندیدہ جگہ ہوتی ہے۔ لیکن شہری علاقوں میں بھی بعض جگہوں پر وہ کچھ عرصے کیلئے رہنے لگتے ہیں اور پھر اچانک کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ عام لوگوں کی نظر میں بے کار قسم کے یہ افراد سفلی جادو سے ناجائز کام کرانے والوں کے لیے بڑے کارآمد ہوتے ہیں جنہوں ڈھونڈتے ہوئے وہ جنگل ، بیابانوں کی خاک چھانتے ہوئے ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ سفلی عاملین کے قریبی ذرائع کے مطابق سفلی جادوگر جنات کو شراب پلا کر آلہ کار بناتے ہیں اور پھر ان شریر جنات سے مذموم کام کراتے ہیں۔ سفلی جادو گر انتہائی گندے رہتے ہیں اور ہر سفلی عمل سے پہلے انسانی فضلہ کھاتے ہیں۔ سفلی عمل خالصتاً شیطانی فعل ہے جو غلاظت اور ناپاکی سے بھرا ہوتا ہے۔ سفلی عاملین چونکہ شیطان(ابلیس) کو معبود (استغفراللہ) مان کر اپنا دین و مذہب چھوڑ چکے ہوتے ہیں چنانچہ ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ یہ ہوتا ہے کہ دیگر لوگوں کا بھی ایمان چھین کر ان کی آخرت برباد کر دیں۔
ذرائع کے مطابق سفلی جادو گر مختلف عملیات کیلئے درکار انسانی اعضا حاصل کرنے کیلئے جہاں تازہ قبریں کھودتے ہیں وہیں اب ملک کے کئی شہروں کے مختلف ہسپتالوں کے طبی عملے میں شامل کچھ بد بخت لوگ بھی پیسوں کی لالچ میں انہیں مطلوبہ اعضا فراہم کرنے لگے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ان انسانی اعضا میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ کلیجی کی ہوتی ہے۔ سفلی جادو گر انسانی کلیجے پر مختلف مہلک کالے عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح سفلی جادو گر بکرے بھی طلب کرتے ہیں۔ انہیں بکروں تازہ خون درکار ہوتا ہے جو وہ بعض سفلی عملیات شروع کرنے سے پہلے پیتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ سب سے زیادہ اہمیت خنزیر کے خون کو دیتے ہیں۔ لیکن خنزیر کے خون کی مشکل سے دستیابی کی وجہ سے بیشتر عامل شراب اور بکرے کا خون پی کر سفلی عمل شروع کرتے ہیں۔ جبکہ شیطان کو خوش کرنے کے لیے جادوئی عمل کے دوران ناپاکی کی حالت میں رہا جاتا ہے۔ سفلی عاملوں کی مذموم سرگرمیوں کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ ’’سفلی جادو کرنے کے لیے براہ راست شیطان سے مدد لی جاتی ہے۔شیطان غلاظت اور ناپاکی سے خوش ہوتا ہے۔ اس لیے سفلی جادو گر اپنے کلائنٹس کو بھی ایسے ناپاک فعل کرنے کا کہتے ہیں کہ ان کا ایمان خراب ہو جائے اور شیطان کو خوش کیا جائے۔‘‘ سفلی عمل کرنے والوں کا ایک دعویٰ بہت مشہور ہے کہ ’’محبوب آپ کے قدموں میں۔‘‘ اس کا دعویٰ کرنے والے بیشتر جادو گر نوسر باز ہوتے ہیں تاہم ماہر سفلی جادو گر اس عمل کے لیے غلاظت پر ’’تنتر‘‘ پڑھت کر دیتا ہے۔ سفلی عمل کرانے والا اس چیز کو کسی بہانے سے مطلوبہ فرد کو کھلا دے تو وہ اس کی باتیں ماننے لگتا ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ کسی کو ’’غلام‘‘ بنانے کی تو اس کے کئی سفلی عملیات ہیں۔ ایک عمل یہ ہے کہ سفلی عامل کسی کو غلام بنانے کی خواہش لے کر آنے والے فرد سے کہتا ہے کہ جہاں کوئی گدھا بیٹھتا ہو، وہاں سے اس کی لید کے نیچے کی مٹی لے آؤ۔ عامل اس پر شیطانی منتر پڑھتا ہے۔ پھر اس مٹی پر بکرے یا سور کے خون کے چھینٹے مارتا ہے اور سائل کو دے دیتا اور ہدایت کرتا ہے کہ اس مٹی کو جسے غلام بنانا ہو اس کے سونے کی جگہ پر ڈال دو۔ ذرائع کے مطابق ایک اور دعویٰ بھی سننے کو ملتا ہے کہ دشمن زیر ہو گا، برباد ہو گا، یا مرجائے گا! اس کام کیلئے سفلی عامل کسی بھی انسان کو پاگل کرنے کیلئے سائل سے بکرے یا سور کا خون منگواتا ہے۔ پھر اس خون کو شیطان کو پیش کرتا ہے، خون پیتے ہی شیطانی موکل، ہدف بنائے شخص کے دماغ میں سانس کے ذریعے داخل ہو جاتا ہے جس سے شکار بننے والا شخص شروع شروع میں بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ پاگل ہو جاتا ہے۔ گھریلو ناچاقی، کاروباری بندش اور اس قسم کے دیگر کں کے لیے ہندو جادوگر، چتاکی راکھ استعمال کرتے ہیں۔ سفلی عامل چتاکی راکھ پر شیطانی منتر پڑھتے ہیں۔ یہ راکھ جس دکان کے سامنے ڈال دی جائے اس کا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جس گھر کی دہلیز پر یہ راکھ بکھیر دی جائے وہاں ناچاقی شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سفلی کا ایک مخصوص عمل ’’چوکی‘‘ بھی ہے جس کیلئے عامل ایک کمرے میں بیٹھ کر سات چراغ، دیسی گھی جلاتا ہے اور ان میں سیندور اور دیگر اجزا ڈال کر منتر پڑھتا رہتا ہے۔ چوکی کا یہ عمل تین دن ، دس دن اور 15 دن کا ہوتا ہے۔ اس عمل سے بھی کسی کی بربادیکا کام لیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق سفلی جادو جتنا بھی خطرناک ہو اس کی کاٹ روحانی طریقوں سے ممکن ہے۔ جبکہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے والے اور دین پر سختی سے کاربند رہنے والے افراد کو نشانہ بنانا مشکل ہوتا ہے۔
کالے جادو اور سفلی عاملوں میں کالی مائی، کالی دیوی یا کالکا دیوی اور ہنومان سخت ترین تصور کیا جاتا ہے اور جس کے قبضے میں ان میں سے ایک چیز بھی ہو وہ انتہائی طاقتور عامل یا سفلی گر سمجھا جاتا ہے۔کالے جادو میں یہ سب سے سخت عمل کہلاتا ہے کیونکہ کالی مائی کو بار بار جانوروں کی بھینٹ دینا پڑتی ہے تاکہ عامل یا اس کی اولاد پر سختی نہ آئے ۔بعض شیطانی عملیات کے زریعے کالی تک پہنچنے کیلئے انسانی جان کی بھینٹ بھی دینی پڑتی ہے۔جادو ٹونے کی دنیا میں یہ روایت مشہور ہے کہ کالی مائی تک پہنچنے کیلئے عامل کو سات ہزار پہریداروں کو کراس کرنا پڑتا ہے لیکن پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا عامل ہو جس نے یہ تمام میر عبور کر رکھے ہوں،یعنی کالی دیوی اس کے مکمل قبضے میں ہو۔ ہندوؤں میں کالے جادو کرنے والے عاملوں کے دو فرقے ہیں ایک رام کے ماننے والے اور دوسرے راون کے، رام کے زریعے عمل کرنے والے عموما انسانیت کو نقصان پہنچانے کے کام نہیں کرتے جبکہ راون والے سر تا پا شیطان ہوتے ہیں۔کالی دیوی اور ہنومان کو تابع کرنے کیلئے عمل سے پہلے اور بعد میں کسی جانور کی بھینٹ لازمی پڑتی ہے اور جب کالی دیوی قابو میں آ جاتی ہے تو بعض اوقات وہ انسانی بھینٹ بھی طلب کر لیتی ہے۔کالے جادو کے عامل کالی دیوی اور ہنومان کے علاوہ شمشانک دیوی ، کملا دیوی،پدمنی دیوی، لکشمی دیوی، موہنی دیوی، کالا کلوا، گنیش جی ، دیوتا سروپ، ہمادیو وغیرہ کو تابع کرنے کیلئے عمل کرتے ہیں جس کیلئے عمل کیا جا رہا ہو عموما اس کی مورتی سامنے رکھنی پڑتی ہے۔یہ عمل کسی دریا کے کنارے، قبرستان، کسی ویران مکان یا پیپل کے درخت کے نیچے کئے جاتے ہیں۔
مؤکل بھی دراصل جنات ہوت ہیں ۔ مؤکل روحانی عمل کے علاوہ کالے جادو اورسفلی عمل سے بھی تابع کئے جاتے ہیں، انہیں قابو کرنے کیلئے ہر قسم کے عمل میں چلہ کاٹنا ضروری ہے البتہ نوری وظیفے کے دوران پانچوں وقت کی نامز پڑھنا اور پاک و صاف رہنا شرط ہے اس کے برعکس سفلی عمل میں ناپاک رہن لازمی ہوتا ہے۔سفلی کیونکہ شیطانی عمل ہے لہٰذا اس کے اکثر عملیات میں ناپاک اور پلید رہنا پڑتا ہے، روز شرب پینا اور زنا لازمی ہوتا ہے اگر سفلی گر دوران چلہ پاک رہے گا یا شیطانی کام نہیں کرے تو بدی کی قوتیں اسے تنگ کرتی ہیں روحانی یا سفلی دونوں قسم کے عملیات کیلئے عامل اپنے گرد حصار کھینچ کر بیٹھتا ہے تا کہ وہ ماورائی قوتوں سے محفوظ رہے، کالے جادو یا سفلی عمل کیلئے زیادہ تر سیندور سے حصار کھینچ کر شیطانی قوتوں کیلئے سات قسم کی مٹھائیاں ، شراب اور دیگر چیزیں توشے کے طور پر رکھی جاتی ہیں۔ اس قسم کے چلے ہزاروں میں ایک دو کامیاب ہوتے ہیں اکثر ناکامی سے دو چار ہوتے ہیں،بعض کے چلے الٹے بھی ہو جاتے ہیں جس سے عامل پاگل ہو جاتا ہے یا خود کو اور اپنے عزیزوں کو نقصان پہنچتا ہے. جادوگر میں یہ تصور عام ہے کہ یہ کام اس سے "گندی چیزیں” کراتی ہیں جو چلہ الٹا ہو جانے کے بعد اس پر حاوی ہو جاتی ہیں۔اس کے علاوہ ہمزاد کا چلہ بڑا سخت ہوتا ہے۔ عاملوں اور جادوگروں میں ہمزاد کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ ہمزاد ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے، ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ہی مرتا ہے۔کچھ کے نزدیک یہ شیطان ہے، اکثریت کا کہنا ہے کہ ہمزاد کا جسم لطیف، انسان کا سایہ ہے اس بارے میں مشہور ہے کہ اگر کوئی عامل کسی متقی، پرہیزگار اور پنج وقتہ نمازی کے خلاف ہمزاد کو استعمال کرے تو اسے الٹا نقصان ہوگا اور ہاتھ سے ہمزاد بھی جاتا رہے گا جب متقی شخص کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔ ہمزاد کی بہت سے قسمیں ہیں مثلا ،علوی،عکسی یا غیبی وغیرہ اس میں ہمزاد علوی قسم بہت قوی تصور کی جاتی ہے۔ یہ تصور عام ہے کہ ہمزاد کو قابو کرنے سب سے مشکل کام ہے اور اس کا چلہ خواہ نوری ہو یا سفلی بڑا سخت ہوتا ہے۔ اس وقت شہر میں شاید ہی کوئی عامل ہو جس نے ہمزاد کو تابع کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ کسی دوسرے کے ہمزاد کو قابو کرنے سے اپنا ہمزاد پکڑآسان ہوتا ہے۔
مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے معروف روحانی اسکالر سید اسد علی شاہ کے مطابق پورن ماشی کے چاندکا کالے جادو سے گہرا تعلق ہے، پورے چاند یعنی پورن ماشی کے چاند کی ایک نایاب قسم ہے جو عمومی چاند سے 14 فیصد زیادہ بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن ہوتا ہے۔پورن ماشی کا چاند مہینے میں ایک بار دیکھا جاتا ہے جبکہ سپر مون پورے سال میں صرف چند موقعوں پر ہی نظر آتا ہے۔سپر مون کیلئے وقت کا صحیح ہونا ضروری ہے، ہمارا چاند زمین کا مکمل ایک چکر 27.32 دنوں میں مکمل کرتا ہے۔ اس چکر کے دوران چاند دو پوائنٹس سے گزارتا ہے جنہیں ‘پیریجی’ اور ‘اپوجی’ کہا جاتا ہے۔اپوجی پوائنٹ زمین سے 252,000 میل کی مسافت پر ہے جبکہ پیریجی 224,000 میل دور ہے۔ یعنی پیریجی اپوجی کے مقابلے میں زمین سے 30000 میل قریب ہے۔سپر مون اس وقت نظر آتا ہے جب زمین ، سورج اور چاند پیریجی سائیڈ سے ایک لائن میں ہوں، جب پورا چاند اور پیریجی بیک وقت ساتھ آتے ہیں تو ہی سپر مون واقع ہوتا ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کیونکہ زمین سورج کے گرد بھی گھومتی ہے، جبکہ چاند کی زمین کے گرد گھومنے کی رفتار اور سمت ایک نہیں رہ پاتی۔ اس طرح پورا چاند مسلسل ایک نہیں رہ پاتا۔ گزشتہ کئی سالوں میں چاند کے زمین کے گرد گھومنے کی رفتار میں تبدیلی آتی رہی ہے۔پورن ماشی کے چاند یعنی فل مون اور سپر مون میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ سپر مون دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا صحیح وقت زمین ہے کہ جب وہ زمین کے قریب افق کے پاس ہو۔ پاکستان کے معروف مذہبی اسکالر سید اسد علی شاہ کے مطابق کالے جادو میں چاند کا بہت عمل دخل ہے، زیادہ تر کالے جادو کی عملیات چاند کی تاریخوں اور سمتوں پر مشتمل سے مشروط ہوتی ہیں۔صرف ایشیائی کالے جادو کے عامل ہیں نہیں بلکہ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے جادوگر بھی چاند کو اپنے جادو میں استعمال کرتے ہیں۔اس کیلئے فل مون اور سپر مون کا انتظار کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ عملیات صرف اور صرف مذکورہ چاند ہونے کی صورت میں ہی مکمل ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کے معروف روحانی اسکالر سید اسد علی شاہ کے مطابق کوئی بھی الہامی مذہب ایسا نہیں ہے کہ جس میں انسانی جان کو نقصان پہنچانے کی ترغیب دی گئی ہوجبکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ابلیس نے انسانوں کو گمراہ کرنے اور انہیں نقصان پہچانے کا چیلنج کیا تھا جس پر وہ روز ازل سے عمل پیرا ہے اور اس کیلئے ہر دور میں اس نے مختلف حربے استعمال کیے، ان شیطانی حربوں میں ایسا علم بھی ہے کہ جسے کالا علم کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے معروف مذہبی اسکالر سید اسد علی شاہ کے مطابق ایشیا اور افریقہ اور یورپ کی قدیم تاریخ میں بھی کالا علم کاذکر ملتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یہ لوگ معاشرے میں سب سے زیادہ قابل عزت سمجھے جاتے تھے جبکہ لوگ ڈر اور خوف کی وجہ سے بھی ان عزت کرتے تھے اور پھر ایسا بھی دور آیا کہ جادوگروں اور جادوگرنیوں کو آگ میں زندہ جلایا جانے لگا کیونکہ یہ معاشرے میں بدی اور برائی پھیلاتے تھے اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے تھے۔
کالاجادو کرنا اتنا بڑا گناہ اسی لئے ہے کہ اس میں براہ راست شیطان (ابلیس) اور اس کی اُولاد سے مدد مانگی جاتی ہے جو منتر پڑھے جاتے ہیں ان میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا انکار اور ان کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے پھر ابلیس یا اسکی اولاد کو معبود یا مددگار مان کر ان سے مدد مانگی جاتی ہے۔سخت ترین جادو میں تو نعوذ باللہ قراآن پاک کو الٹا لکھا یا پڑھا جاتا ہے یا حرام اور غلیظ سیاہی سے لکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات جادوگر قرآن پاک کو چھوٹے سائز میں بنوا کر اسے جوتیوں میں پہن لیتا ہے پھر بیت الخلاء جا کر مشرکیہ منتر پڑھتا ہے جس سے شیاطین بہت خوش ہوتے ہیں اور اس جادوگر کے تابعبہت سی شیطانی بلائیں کر دی جاتی ہیں جو اس جادوگر کے کام آتی ہیں۔یہ جاننے کیلئے جادو ہوا ہے اس کی مخصوص علامات دیکھنا ضروری ہونگی۔ اگر ان علامات میں سے 70 فیصد کسی شخص میں ظاہر ہوں تو اس پر کالے جادو ہونے کے کافی امکانات ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر یا تو جسمانی یا نفسیاتی مسئلہ ہوگا یا پھر نظر بد کے اثرات ہوں گے۔عوام کی
آسانی کیلئے بتاتے ہیں کہ کالے جادو کی علامات دو اقسام کی ہیں۔ایک عمومی علامات اور دوسری خصوصی علامات۔
عمومی علامات مند رجہ ذیل ہیں ۔
1) جس شخص پرکالا جادو کیا گیا ہو اسے مخصوص خواب آتے ہیں جن میں یہ چیزیں نمایاں ہوتی ہیں۔
2) خواب میں نجاست دیکھنا، اپنے جسم پر نجاست لگی ہوئی دیکھنا۔
3) خواب میں خود کو یہ کسی کو زنا کرتے دیکھنا۔
4) خواب میں ڈرنا، عجیب و غریب ڈراؤنے خؤاب دیکھنا۔
5) خواب میں کتا، مردہ یا بچھو دیکھنا۔
6) خواب میں کالی بھینس دیکھنا، یا بھینس کو نہاتے دیکھنا۔
7) بہت بدبو والی ریح خارج کرنا۔
8) بے سکونی محسوس کرنا۔
9) سب کچھ ہونے کے باوجود خوش نہ ہونا۔
10) دل میں گھبراہٹ اور عجیب طرح کا ڈر اور خوف محسوس ہونا۔
11) اپنے آپ سے نفرت محسوس کرنا۔
12) آزان کی آواز سن کر چڑچڑاہونا، آزان کی آواز سے اکتاہٹ، بے چینی یا نفرت ہونا اور آرزو کرنا کہ آزان جلد سے جلد ختم ہو۔
13) قرآن پرھنے یا سننے سے جسم میں درد یا کسی قسم کی تکلیف محسوس کرنا۔
14) جسم میں کیڑا کاٹنا، جب غور کرو تو کچھ نہ ہو۔
15) دوائیوں کا اثر نہ ہونا، یا کبھی دوائی شروع میں اثر کرتی ہے بعد مہیں نہیں کرتی۔
16) ہر کام میں جلدی جلدی کرنا، کوئی بھی کام کرنا تو آرزو اور کوشش ہونا کہ فوراً ہو جائے ۔ ذرا سی دیر ہو جائے تو جسم میں ایک عجیب سی بے چینی شروع ہو جاتی ہے اور انتظار نہیں ہو پاتا۔
جبکہ خصوصی علامات یہ ہیں۔
1) کالے جادوں میں درج ذیل بیماریاں ہوتی ہیں یہ بالکل ضروری نہیں کہ جب بھی یہ بیماریاں ہوں تو جادو ہی ہوگا بلکہ جادو کیلئے پہلے مندرجہ بالا عمومی علامات کا ہونا ضروری ہے۔
1) سرمیں درد رہنا۔
2) کمر اور گردوں میں درد رہنا۔
3)پیروں میں درد رہنا ۔
4) پورے جسم میں درد رہنا۔
5) آنکھیں جلنا اور لال رہنا ۔
6) رفعِ حاجب کا بار بار ہونا۔
7) فضلہ میں بہت تیز بو کا ہونا۔
8) پیٹ کا کھایا پیا غایب ہو جانا یعنی جو کچھ کھایا ہووہ آدھے یا ایک گھنٹے بعد ہضم سا ہو جانا اور پھر بھوک لگنا، بار بار بھوک لگنا۔
9) پیٹ میں درد، معدے میں درد اور متلی کی سی کیفیت۔
10) دل کی دھرکن تیز ہونا، سینے میں درد یا جلن رہنا۔
11) جسم پر سرخ دانہ نکل آنا، منہ اور سر پر دانے نکلنا ۔
12) مرد کو اکثر احتلام ہونا۔
13)? جسم کی رگیں کھنچنا۔
11) چکر آنام آنکھوں کے آگے اندھیرا آ جانا۔
12) نزلہ اور چھینکیں بہت ذیادہ ہونا، بعض اوقات چھینک مارتے ہوئے عجیب سی بدبو محسوس ہونا جیسے کوئی سڑا ہوا نزلہ باہر نکلا ہو۔
متفرق علامات
1) جنسی خواہش میں ذیادتی محسوس ہونا۔
2) جسم میں آگ سی محسوس ہونا ۔
3) جسم کا گرم رہنا ناک منہ سے گرم ہوا کا نکلنا۔
4) جسم میں سوئیاں سی چبھنا۔
5) منہ کالا ہو جانا، جادو جتنا سخت ہوبا منہ اتنا ہی کالا اور بھیانک ہو جائے گا۔
6) چڑچڑا ہو جانا۔
7) نماز سے دوری ہو جانا، اللہ اور اس کے رسول سے بیزاری سی محسوس ہونا، دل میں عبادات کو برا محسوس کرنا۔
8) بلا وجہ تھکان ہو جانا، کاہلی، سستی نکما سا ہو جانا اور دیر تک سوتے رہنا۔
9) ہاتھ پیر سن ہو جانا ۔
10) عموماً کھانا کھانے سے پہلے یا دوران منہ میں ایسا پانی آنا جس کی عجیب سی بدبو ہو۔
11) آنکھوں کے سامنے سایہ محسوس کرنا یا اندھیرا سا چھا جانا ۔
کالاجادو کرنے والے عاملین نے ملک کے مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں ڈیرے بنا رکھے ہیں ۔ان شیطان کے چیلوں نے اپنے جادو ٹونے اور موکلوں کے زور پر ایک خوفناک عفریت کی شکل اختیار کر لی اور آکٹوپس کی مانند معصوم لوگوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر نہ صرف انھیں لوٹنا شروع کر دیا بلکہ مخالفین سے بھاری رقوم لے کر کالے جادو اور زہریلے تعویزوں کے ذریعے لوگوں کے گھر برباد کرناشروع کر دیے معاشی اور سماجی بے چینیوں میں مبتلا لوگ روزی اور روٹی کی طلب میں ان باتونی اور چالباز عاملوں کی باتوں میں آ کر نہ صرف حقیقت کی دنیا سے دور ہو جاتے ہیں بلکہ اپنا دین اور ایمان بھی گنواء دیتے ہیں جبکہ خواتین اپنی عزتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔اس ظلم اور زیادتی کے خلاف نہ کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے ان کے خلاف کاروائی کی۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں جبکہ انسان مریخ سے بھی آگے جانے کی سوچ رہا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک گاؤں کی مانند کمپیوٹر سکرین پر لا کر رکھ دیا ہے، مگر جدید علوم کے ساتھ آج بھی قدیم علوم اتنی ہی قدر رکھتے ہیں جتنی اپنے دور میں رکھتے تھے۔ دینی اور روحانی علوم میں پوری قدرت رکھنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ سفلی یا کالا جادو عام طورپر بعض دین سے گمراہ مرد یا عورتیں ’’اپنوں‘‘ کو قابو کرنے یا انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے کرواتے ہیں۔مگر بعد میں جب یہی کالے علم کے شکار ’’مریض‘‘ اللہ تعالیٰ کے کسی نیک اور پرہیز گار بندے کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ اُس شیطانی کالے علم کے اثرات کو ’’مریض‘‘ پر سے بالکل ایسے صاف کر دیتے ہیں، جیسے کوئی مکڑی کاجالا صاف کردے۔یہ حقیقت ہے کہ کالا جادو کیسی ہی خوف ناک تباہی کیوں نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نیک اور پرہیز گار بندے قرآن مجید کی مدد سے ’’کالے جادو‘‘ کو ختم کر دیتے ہیں۔ بے شک اللہ کا علم ہی حق اور طاقت ور ترین ہے اور شیطانی علم (کالا جادو) بہرحال ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ باطل ہے۔اللہ تعالیٰ کے نیک اور پرہیز گار بندے صوفیائے کرام گلستان اسلام کے وہ مہکتے پھول ہیں جنہوں نے ہر سو محبت کی خوشبوئیں بکھیریں، یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے امن کے دیپ چلائے اور قرآن و سنت کے ذریعے اسلام کا علم بلند
کیا۔ تصوف کی راہ وہی شخص پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سنت مصطفیؓ ہو اور وہ ان دونوں شمعوں کی روشنی میں قدم بڑھاتا جائے ،صوفیاء کرام علوم قرآن،فقہ، حدیث اور تفسیر میں امام ہوا کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نام مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں رہنے والے محترم جناب سید اسد شاہ صاحب کا بھی ہے جو قرآن و سنت کے روشن راستے پر چلتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں جدید دورکے سب سے بڑے فتنے ’’کالے جادو‘‘ کے سحر میں مبتلا لوگوں کو اس لعنت سے فی سبیل اللہ نجات دلانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ محترم جناب سید اسد شاہ صاحب اب تک 20 لاکھ سے ذائد لوگوں کو فی سبیل اللہ ’’کالے جادو‘‘ کے سحر سے نجات دلا چکے ہیں۔ محترم جناب سید اسد شاہ صاحب پاکستانی معاشرے کا
قیمتی اثاثہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت اور عمر دراز فرمائے۔ ان کو صحت و تندرستی دے اور ان کا سایہ تادیر مصیبت زدہ لوگوں کے سرپر قائم و دائم رکھے۔
جادو کے علاج کا طریقہ
جب کوئی جادو کی بیماری میں ہو تو وہ اس کا علاج جادو سے نہ کرے کیونکہ شر، برائی کے ساتھ ختم نہیں ہوتا، اور نہ کفر، کفر کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ بلکہ شر اور برائی خیر اور بھلائی سے ختم ہوتے ہیں۔مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے معروف روحانی اسکالر سید اسد علی شاہ کے مطابق جادو کے شرعی علاج میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا علاج قرآن پڑھ کر کیا جائے۔کالے جادو کے شکار انسان پر سورۃ فاتحہ اور چاروں قل سات سات مرتبہ پڑھیں، آیت الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھیں اورروزانہ سورۃ البقرہ کی گھر میں تلاوت کی جائے ،سورۃ کہف کی آخری تین آیات پڑھ کر دم کیا جائے۔ اگر پڑھنے والا صالح اور مومن اور جانتا ہو کہ ہر چیز اللہ تعالی کے فیصلے اور تقدیر سے ہوتی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی سب معاملات کو چلانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہو جا، تو وہ ہوجاتی ہے۔ اگر یہ ایمان، تقوی اور اخلاص کے ساتھ روزانہ پڑھے تو جادو زائل ہوجائے گا اور مریض اللہ تعالی کے حکم سے شفایاب ہوگا۔سفلی جادوسے بچاؤ کیلئے حفاظتی عمل نماز ہے ،پانچ وقت نماز پڑھنے والے پر جادو ہونا تقریباً نا ممکن ہوتاہے۔

No comments:

Post a Comment

پتھروں کے خواص

پتھروں کے خواص برج حمل کے موافق پتھر پکھراج پکھراج جیسے فارسی میں قوت ارزق اور ہندی میں پو شپ راگ کہتے ہیں ۔ ایک عمدہ زردرنگ قدیمی...